Main Menu

Monday, May 13, 2013

The Story of Stone Urdu Prat 1


                             پتھر کی کہانی     

پتھر کی کہانی انسان سے زیادہ پرانی ہے قران پاک میں اس کائنات کا اور انسان کی تخلیق کا ذکر آیا ہے الله پاک نے بعض
روایات کے مطابق سات آسمان اور سات زمیں پیدا کی ہیں لوح اور قلم بنائے ہیں اور یہ سب کچھ سات دن میں ہوا ہے کہا جاتا ہے کہ اسی لئے انسان کی حیات میں سات کا عدد بڑی اہمیت رکھتا ہے  شاید اسی لئے دنوں کہ شمار میں پہلا ہفتہ بھی سات دن کہ ہوتا ہے تخلیق کائنات کے بعد الله  کے نور کی قوت ظہور نے آدم کو تخلیق کیا آدم کو مٹی سے بنایا گیا اور ان کو جنت میں رکھا گیا جب حضرت ابراہیم اور حضرت اسمعیل علیہ سلام نے الله کا گھر خانہ کعبہ تعمیر کیا تو الله  نے اپنے اس عظیم گھر کی خوبصورتی میں اضافہ اس طرح سے کر دیاکہ اس گھر کے لئے جنت سے ایک پاک اور خاص پتھر بھیجا جو خانہ کعبہ میں نصب کیا گیاجسے آج بھی کڑوں انسان نہایت ہی عقیدت سے حج کے موقع پر بوسہ دیتے ہیں اس پتھر کو اسود کہتے ہیں
جس کے بارے میں خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق قول ہے کہ اے پتھر میں اگرچہ تجھے ایک پتھر سمجھتا ہوں مگر صرف الله کا حکم  پورا کرتا ہوں اور تجھ کو بوسہ دیتا ہوں ان دونو باتوں سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کے پتھر کہ جنم انسان سے پہلے ہوا ہے اور اس پتھر کہ احترام صرف اس لئے واجب ہوا کے اس کو سنگ اسود کہ نام دیا گیا  اور خدا کے گھر میں اسے نصب کیا گیا کیوں کے حضرت آدم جنت میں رہے جہاں سنگ اسود 


بھی تھا اس طرح یہ ثابت ہوتا ہے کہ انسان اور پتھر کی رفاقت سمادی اور آفاقی درجہ رکھتی ہے اور یہ ہی وجہ ہے کے آج کروڑوں انسان بلکل اسی طرح جیسے صدیوں پہلے دور جہالت میں ہوتا تھا اس وقت بھی پتھر کو دیوتا بنا کر پوج رہے ہیں پتھر نے ہر دور میں انسان کا ساتھ دیا ہے اور اس زمین کی مٹی سے پتھر کا گہرا تعلق ہے اور کیوں کے انسان کو مٹی سے بنایا گیا ہے اس طرح پتھر اور انسان کا رشتہ بہت قریبی ہے


مگر یہ تعلق اس وقت بڑی اہمیت اختیار کر گیا جب انسان نے شعور کی منزل میں پہلا قدم رکھا اور پتھر کی اہمیت کے پیش نظر اس کی رفاقت کو تسلیم کیا یہ وہی دور تھا جسے آج بھی دنیا پتھر کے دور سے جانتی ہے رفتہ رفتہ انسان شعور کی منزلیں طے کرتا رہا اور یقیناً وہ دن بڑا ہی عجیب رہا ہوگا جب آدمی نے پہلی بار کسی چمک دار پتھر کو دیکھا ہوگا اور اس کی چمک سے متاثر ہوا ہوگا ماضی بعید  کے اس زمانے کو ہم صرف چشم تصور سے ہی دیکھ سکتے ہیں یہ پتھر سے انسان کی محبت ہی تو تھی کہ انسان نے چمکدار پتھروں کو زندگی میں ایک خاص مقام عطا کر دیا اور اسے ہیرے اور موتی کہ درجہ دے کر اس کی قدر اور قیمت  میں یہاں تک اضافہ کر دیا کہ ایسا پتھر ایک عام آدمی کی پہنچ سے دور ہوگیا پھر یہ پتھر صرف بادشاہ اور مالدار لوگوں تک محدود ہو گئے ماضی قریب میں مسلمان بادشاہوں نے ہیروں کو تاج سلطانی میں شامل کر کے ان کی قدر اور قیمت میں مزید اضافہ کر دیا اور ہم میں سے بہت سے لوگ جانتے ہیں کہ مغل بادشاہ جہانگیر کے تاج میں وہ عظیم پتھر یا ہیرا موجود تھا جسے دنیا کوہ نور ہیرے کے نام یاد کرتی ہے یہ ہیرا آخری مغل بادشاہ  بہادر شاہ ظفر تک ہندوستان میں رہا بعد میں انگریزی فاتحین نے کوہ نور ہیرا تاج سے الگ کرنے کی کوشش میں توڑ دیا اس ہیرے کا ٹوٹا ہوا ایک حصہ ملکہ برطانیہ کے تاج میں لگایا گیا تھا یہ تاریخی اور یادگار پتھر کوہ نور آج بھی لندن کے میوزیم میں دیکھا جاسکتا ہے اس چیز کو دوسری ضروریات میں بھی خاص مقام دیاپتھر سے انسان کو محض عقیدت و محبت ہی نہیں رہی بلکہ انسان نے  ہے ساجد مندر گرجے اور دوسرے معبودوں کے علاوہ تاریخی عمارات اورم مزاروں کی تعمیر میں بھی ایک اہم رول ادا کیا ہےمثال کے طور پر گھروں کی تعمیر قلعہ جات  تاج محل ایک تاریخی عمارت ہے اور دنیا کے سات  عجوبہ میں سے ایک عمارت ہے اور یہ عجوبہ بھی انسان نے پتھر کی مدد سے ہی انسان نے پیش کیا ہے  خوب سے خوب تر کی تلاش میں اپنا سفر جاری رکھا پتھر کے دور سے ہی انسان کی کھوجی فطرت نے  آدمی نے فطرت کے اس کارخانے کو ابتدا یقیناً میں بہت حیرت سے دیکھا ہوگا مگر پھر یہ ہی حیرت انسان کے لئے دریافت کا ذریعہ بن گئی اور انسان نے تلاش جیسی اہم حقیقت کو پالیا حصول دراصل تلاش کا ہی مرہون منت ہوتا ہے تلاش کا یہ سفر صدیوں بلکہ ہزاروں سال پرانا ہے آدمی اگرچہ 
کائنات کا جز ہے بظاہر ایک چھوٹا جز معلوم ہوتا ہے مگر یہ اس کی تلاش کا جذبہ اور محنت کا نتیجہ ہےکہ انسان نے دھرتی
کا سینہ چیر دیا  اور اس کے بہت سے رازوں کو بے نقاب کر دیا   ضرورت ایجاد کی ماں ہوتی ہے یہ ایک محاورہ ہے اور اس کا اطلاق انسانی زندگی کے تمام شعبوں پر محیط ہے حقیقت یہ ہے کہ جوں جوں انسانیت کی عمر میں اضافہ ہوا ہے 
اور انسان نے اپنی تلاش کے سفر کو تیز کیا ہے اسی اعتبار سے دریافت نے بھی اپنے دامن کو کھول دیا اور دریافت کے خلوص کا مظہر یہ ہے کہ انسان نت نئے رازوں کو پاچکا ہے یہ انسان کی تلاش کا نتیجہ ہے کہ آدمی نے بے کار پتھروں میں سے چمکدار پتھر دریافت کر لئے اور ان پتھروں کے مختلف نام رکھ دیے انسان اپنی محنت اور جستجو کے بے لگام گھوڑے پر سوار ہو کر ساری دنیا حاصل کرنا چاہتا ہے اور ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ طلب کبھی ختم نہیں ہوتی بلکہ رسد تو طلب میں مزید اضافہ کر دیتی ہے انسان اس بچے کی مانند رہا ہے جو ایک کھلونے پر کبھی قناعت نہیں کرتا وہ تو ایک کھلونا حاصل کر لیتا ہے تو کچھ دیر بعد اس کھیل کر انسان کہ جی بھر جاتا ہے اور خوب سے خوب تر کی تلاش لگ جاتا ہے اور اس کی وجہ سے دنیا میں ہر زمانے میں دریافت کا سلسلہ جاری رہا انسان دنیا میں ہر چیز کو نفع اور نقصان کی کسوٹی پر رکھ کر پرکھتا رہا پھر جو چیز مفید ہوتی ہے اس کو اپنا لیتا ہے اور جو نقصاندہ ہوتی ہیں ان سے ہر ممکن طور پر بچنے کوشش کرتا ہے یہ بات انسان کی نیچر میں شامل ہے اس لئے ہم قاعدے نیچرل یا فطری طریقہ کہہ سکتے ہیں یہ بات انسان کی نیچر میں شامل ہے اس لئے ہم اس قاعدے کو فطری طریقہ کہہ سکتے ہیں پتھر کی دریافت کے بعد یقیناً ابتدائی زمانے کو انسان تھے انہونے اپنی فطرت کے مطابق چمکدار پتھر کو ضرور پرکھا ہوگا اسی لئے شاید ہیرے جواہرات کا ایک ابتدائی تصور انسان کے ذہن میں آیا ہوگا اس دور کے آدمی نے پتھر کی چمک دمک کو ہی اس کی قدر جانا ہوگا اور یہ حقیقت ہے کے وہ پتھر جو
چراغ کی طرح روشن نظر آے اس پتھر کو شب چراغ کہتے ہیں اور جو لوگ ان پتھروں کو بادشاہوں کے دربار پیش کرتے  
 وہ انعام کے حقدار بن جاتے تھے بادشاہ ان کو خوب انعام سے نوازا کرتے تھے اس طرح جیسے دریافت کا سلسلہ آگے بڑھتا رہا پھر انسان نے یہ طے کیا ہوگا جس طرح دوسری چیزوں کے خواص ہوتے ہیں بلکل اسی طرح پتھروں کے بھی کچھ خواص ہونگے اب ہم کو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کے اس دور کا انسان پتھر کی چمک دمک اور اس کے حجم سے متاثر ہوا ہوگا  اور پھر رفتہ رفتہ انسانی شعور نے اس کے ادراک کے دروازے پر دستک دی اور آدمی اس راہ میں چند قدم اور آگے بڑھا اور پھر رفتہ رفتہ انسانی شعور نے اس کے ادراک کے دروازے پر دستک دی اور آدمی اس راہ میں چند قدم اور آگے بڑھا اور اپنی فطرت کے مطابق اس نے تلاش جاری رکھی اور ان باتوں کا پتا چلایا کہ چمکدار پتھروں کے اثرات کیا ہوتے ہیں اور اس  کا پتا چلایا کے ان پتھروں کے وہ کون سے خواص ہیں جوانسان کے کام آسکتے ہیں اور کن پتھروں سے انسان کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور صدیوں بلکہ ہزاروں سال کی تلاش کے بعد انسان کی دریافت آج اس مقام پر کھڑی ہے  اور کن پتھروں سے انسان کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور صدیوں بلکہ ہزاروں سال کی تلاش کے بعد انسان کی دریافت آج اس مقام پر کھڑی ہے  جہاں کچھ پتھروں کی حقیقت آشکار ہو چکی ہے اگرچہ اس بات کو ابھی جزوی درجہ دیا جاسکتا ہے ممکن ہے ہمارے انسان اس سفر میں آگے جاکر اس سے کہیں زیادہ ان پتھروں کے مطلق جان سکیں اور ان کی دریافت حیرت ناک بھی ہوسکتی ہے  آج ہم یا ہمارے دور کا آدمی تصور بھی نہیں کر سکتا جیسے 

لوگ کہتے ہیں کسی کو کہ یہ پتھر دل ہے اس کے جگر میں درد نہیں ہوتا جی ہاں یہ بات بلکل سچ ہے کہ پتھر کے جگر میں درد نہیں ہوتا مگر یہ ثابت ہو چکا ہے کہ اس کے جگر میں ہیرا ہوتا ہے چمک ہوتی ہے اور ہیرا بھی وہ جو آئینے کو کاٹ کر رکھ دیتا ہے  پتھر کی تلاش کہ سلسلہ جاری ہے اور اس کے ساتھ ہی ان پتھروں اصلیت اور اہمیت اور اس کے خواص پر انسان کی ریسرچ آگے بڑھ  رہی ہے  اور حوالوں کو سامنے رکھا ہے ہم نے اپنے پڑھنے والوں کے لئے جدید ترین سائنسی دریافت  ماہر ارضیات کی آرا کو بھی پیش نظر رکھا ہے اور اس کام کو پورا کرنے کے لئے ہم نے اور متوسط زمانے سے لیکر آج کے اس ماڈرن سائنس کے زمانے تک اس دریافت کا دامن بہت بڑا کر دیا اس لئے ہم نے غیر ملکی ماہرین سے بھی استفادہ کیا ہے حاصل کرنے کے لئے چہرے اور عقیدے درمیان میں نہیں آیاارو علم و فن چونکہ کسی کی  میراث  نہیں ہوتے اسی طرح علم  کرتے آئیے اب ہم یہ دیکھیں کہ پتھر کے خواص کیا ہوتے ہیں دراصل یہ بات صرف ایک سطر میں کہدی گئی ہے مگر یہ بات اتنی آسان نہیں ہے کہاس کا خلاصہ بھی چند سطروں میں پیش کر دیا جائے اس کے لئے کافی محنت علم  اور معلومات کی ضرورت  ہے ہم نے  پر اثرات زمین سے ان کا تعلق کوشش کی ہے کہ پتھروں کے خواص اور ان کے انسانی زندگی کائنات افلاک سے ان کا واسطہ سیاروں سے ان کی نسبت کیا ہے انسان کی وابستگی کے اعتبار سے پتھر کے خواص کس طرح انسانی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں
اس بات کو آسانی سے سمجھانے کے لئے اس جامع قسم کے سوال کو چند خاص حصوں میں بیان کرنا ہوگا  کی اس ضمن میں یہ عرض کرنا بھی ضروری ہے کہ یہ کہانی ہم نے کسی غیر ملکی کتاب کا ترجمہ  کر کے پیش نہیں بلکہ ہم نے زیرنظر کہانی میں برصغیر پاک وہند کے عظیم ماہرین ارضیات اور جوہر شناس حضرات  ہماری نگاہ میں جو دھرتی اور جو پہاڑ ہیں
کو بے حد اہمیت اور اولیت دی ہے اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے جواہرات اور پتھر کے زیورات ہمارے علاقے اور ہماری سوسایٹی میں ہیں اور جو جواہر ہم نے دیکھے ہیں یا جو ہیرے  ہیں  وہ کہیں اور نہیں ملے گے  جو ہیرے اور جواہرات اور پتھر کے زیورات ہمارے علاقے اور ہماری سوسایٹی میں ملیں گے وہ آپ کو کسی اور جگہ نہیں ملیں گے ان کی اپنی ایک نوعیت اور افادیت ہے اور یہ افادیت غیر ملکی ماہرین کی نگاہ کسی بھی مقام پر ہو لیکن ہماری نگاہ میں ان کی  قدر اور قیمت ساری دنیا سے زیادہ ہے ہم اس بات کو یہیں ختم کر کے اب اصل موضوع پے آتے ہیں اور اب  پتھروں کے خواص کو سامنے

  رکھ کر بات کرتے ہیں اس کو جانے کے لئے آپ کو ہمارا اگلا پیچ پڑھنا ہوگا جو بہت جلد آپ کی نگاہ کے سامنے ہوگا 









No comments:

Post a Comment